داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ(پھلت)۔
دوست کو ایک ضرورت سے فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ہسپتال جارہے ہیں‘ خیریت معلوم کی تو بتایا کہ ایک تعلق والے کو‘ جوبزنس پارٹنر رہ چکے ہیں ان کو لے کر ہسپتال جارہے ہیں‘ وہ باتھ روم میں گرگئے ہیں‘ شاید انکے کولہےکی ہڈی ٹوٹ گئی ہے‘ اس حقیر نے سوال کیا کہ آپ انہیں کیوں لے کر جارہے ہیں‘ ان کے کوئی عزیز یا گھر کے لوگ نہیں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ اصل میں ان کے تین بیٹے ہیں اور ایک بیٹی‘ لڑکے ایک ایک امریکہ انگلینڈ اور کینیڈا میں سیٹ ہیں‘ ان کے خود بہت بڑے کاروبار ہیں۔
بیٹی کی پونا میں شادی ہوئی ہے‘ ابھی ایک گھنٹہ پہلے ان کی اہلیہ کا فون آیا جو خود بہت علیل ہیں اور بہت سی بیماریوں کا مجموعہ بنی ہوئی ہیں کہ بھیا آپ کے انکل باتھ روم میں گرگئے ہیں کوئی ان کو اٹھانے والا نہیں‘ نوکر چھٹی پر گیا ہوا ہے‘ بوا جو کام کرنے آتی ہے آج وہ بھی نہیں آئی‘ ایک گھنٹہ ہوگیا‘ وزن زیادہ ہے میں کچھ نہیں کرسکی‘ ان کو باتھ روم سے اٹھانا ہے‘ آپ مہربانی کرسکیں تو مجھ پر احسان ہوگا‘ میں نے بھائی کو ساتھ لیا اور ان کےگھر جو میرے گھر سے سات کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے‘ پہنچا تو بری طرح تڑپ رہے تھے‘ ہم لوگوں نے ان کو اٹھایا‘ قریب سےڈاکٹر کو بلایا‘ ڈاکٹر کا خیال ہے کہ کولہے کی ہڈی میں فریکچر آگیا ہے‘ اصل میں دس سال پہلے وہ میرے پارٹنر تھے‘ ان کی ایک بدمعاملگی پرکاروبار الگ ہوگیا تھا کچھ تعلقات بھی نہیں رہے تھے مگر مجبوری میں انہوں نے فون کیا تو مجھے ترس آیا اور میرا دل ان کی اس حالت کو دیکھ کر بالکل ٹوٹ گیا ہے۔ ارب پتی آدمی‘ تین لڑکے ایک لڑکی‘ صاحب اولاد مگر ایک گھنٹے تک باتھ روم سے اٹھانے والا کوئی نہیں۔۔۔ نہ جانے کیوں انسان نے بس اسی مال و دولت کو ہوڑ اور ریس اور دنیوی ترقی کیلئے اپنی زندگی داؤ پر لگارکھی ہے جس ترقی کا نتیجہ اکثر وہ ہے جو میں اپنے ساتھی ایمبولینس میں پڑے اپنے اس رئیس کا دیکھ رہا ہوں۔
مال و دولت اور دنیا کی ترقی جتنی بڑھتی ہے‘ رشتوں کا جذباتی تعلق اتنا ہی کمزور ہوتا جاتا ہے اور اس کاحال تجارتی پارٹنر شپ جیسا ہوجاتا ہے‘ غریب مزدوروں کے گھروں میں رشتوں کا تعلق دھڑکنوں کے ساتھ وابستہ رہتا ہے‘ انسان کو ذرا سی عقل ہو تو وہ اس دنیا اور مال و دولت کی بے ثباتی کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔
کیسے ہوش مند ہیں وہ لوگ جن کو دنیا کی زندگی اور اس دنیا میں کام آنے والی مال و دولت‘ زر و زمین اور آل و اولاد کو متاع الغرور ہونا اللہ تعالیٰ نے سجھا دیا ہے اور وہ آخرت میں اللہ کی رضا اور جائے رضا جنت کی طلب میں‘ اس دنیا کو اس کی اصل سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے جن کو زاہد کہا جاتا ہے اور جن کا تعارف بعض اہل نظر علماء اور فقہاء نے اس طرح کیا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ نذر مانے کہ میں دنیا کے دس عقل مند ترین لوگوں کی دعوت کروں گا تو اس کی نذر اس طرح پوری ہوسکتی ہے کہ وہ دس زاہدوں کی دعوت کرے‘ یعنی جنہوں نے دھوکہ کے گھر دنیا میں بس قدر ضرورت پر قناعت کرکے آخرت کو زندگی کا مقصد ہونا اپنے عمل اور اپنی بودو باش سے ثابت کردیا ہو‘ ان قناعت پسند زاہدوں نے دنیا کے مال و متاع سے منہ موڑ کر اس ابدالآباد زندگی کی راحت کو مقصود بنا کرموت سے پہلے کی اس زندگی کو بھی کیسا خوشگوار بنالیا ہے اور ان کے دل میں سے راہ پر چلنے سے کیسی بادشاہت کامزہ آرہا ہے۔
کاش! ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ اس کے مزہ سے آشنا فرمادیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں